ہندوتوائیوں کا احساس کمتری یا شکست خوردگی ہندوستانی معاشرے کی قومی نفسیات کو گراوٹ کی کس گہرائی میں دھکا دے گی؟
محمد غزالی خان
احساس کمتری ایک لعنت ہی نہیں بلکہ شکست خوردگی کی ایک ایسی نفسیاتی کیفیت ہے جس کا اگر بروقت مداوا نہ ہو سکے یہ تو خطرناک دماغی بیماری بن جاتی ہے ۔ یہ کیفیت انفرادی سے، گروہی اور گروہی سے آگے بڑھ کر ایک پورے معاشرے کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ انفرادی کیفیت میں کوئی فرد جب اس کا شکار ہوتا ہے تو وہ ایسی عجیب و غیرب حرکتیں کرنے لگتا ہے جن کا بظاہر کوئی سر پَیر نہیں ہوتا ۔
کوئی اپنا سر نیم (خاندنی نام) تبدیل کرلیتا ہے، کوئی اپنے آپ کو کسی مشہور شخصیت کے رشتہ دار کے طور پر متعارف کروانے لگتا ہے ۔ کوئی دوستوں کو مرعوب کرنے کیلئے اپنے آپ کو صاحب ثروت اور دولت مندکے چشم و چراغ کے طور پر پیش کرتا ہے اوراس بات کی پرواہ کئے بغیر کہ اس کا جھوٹ زیادہ دیر نہیں چل پائے گا اور اسے شرمندگی اور ندامت کا سامنا کرنا پڑے گا اپنی اس کاوش میں اس حد تک آگے بڑھ جاتا ہے کہ شہر یا قصبے کے کسی مالدار شخص کے مکان کو اپنی ملکیت بتا کر رعب ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور کچھ تو گراوٹ کی اس حد تک پہنچ جاتے ہیں کہ تھوڑی سی ترقی کرنے اور معاشرے میں مالی اعتبار سے کوئی حیثیت حاصل کرنے کے بعد مہمانوں سے اپنے والدین تک کا تعارف بحیثیت نوکر کے کرواڈالتے ہیں۔اور جب احساس کمتری کی بیماری کسی گروہ یا جماعت کو لگ جائے تو پاگلوں کی ایک پوری جماعت ہی ظہور میں آجاتی ہے۔
اس سلسلے میں اگر گیدڑکو جو کہ ایک کمزور اوربے ضرر سا جانور ہے اور جسے ڈرپوک ہونے کی ایک علامت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور اُس کے inferiority complex کونظر میں رکھیں تو اُس سے متعلق اِس ادبی لطیفے کو پیش کیا جائے تو بات زیادسمجھ میںآجائے گی ۔
گیڈر آبادیوں سے دور جنگلوں کے کنارے ریوڑ کی شکل گپھاوءں میں رہتے ہیں اوررات کے وقت بستیوں کا رُخ کرتے ہیں تاکہ کھانے کو کچھ مل جائے۔ گیڈر طبعاًڈرپوک جانور ہے اور چھوٹے موٹے حشرات کا شکار کرکے یا مردہ ملنے والے دوسرے جانوروں کا کھا کر گزارا کرتاہے جس کے لیے وہ ایک غول کی شکل میں رات کے اندھیرے میں نکلتا ہے ۔ غول کی سربراہی ایک بوڑھا گیڈر کرتا ہے جو تھوڑے تھوڑے وقفے سے ایک بے آواز نکالتا ہے جس کے جواب میں پیچھے چلنے والے دوسرے سارے گیڈر ہواہوا جیسی آوازیں نکالتے ہیں۔ اس کیفیت سے وہ لوگ اچھی طرح واقف ہونگے جو شمالی ہند کے کسی دیہات میں رہے ہو یا انھوں نے وہاں کچھ وقت گزارا ہو۔
رات کے اوقات میں گیڈروں کا اپنی گپھاوُں سے نکل کر دیہات کی جانب ایک ریوڑ کی شکل میں ہوا ہوا کرتے ہوئے نکلنا ایک عجیب کیفیت پیدا کرتا ہے ۔ فارسی ادب میں اس کیفیت کو اس استہزائی انداز میں بیان کیا گیا ہے ۔
آگے چلنے والا گیڈر اپنے پیچھے آنے والے گیڈروں کے غول کو دیکھ کر غرور یعنی وقتی طور پر خبط فضیلت میں مبتلا ہوکر سربراہ کے طور پرنعرہ لگاتا ہے: ً پدرم سُلطان بود ً (میر اباپ بادشاہ تھا) جس کے جواب میں پیچھے چلنے والے گیدڑ جوابی نعرہ لگاتے ہیں (در ایں چہ شک ، دریں چہ شک ، یعنی اس میں کیا شک ہے ) ۔ گیڈروں سے متعلق یہ چُٹکلا اپنی جگہ ایک دلچسپ لیکن با معنی اشارہ ضرور ہے جس میں اگرچہ بظاہر تفنن طبع کا پہلو ہے لیکن ا س میں گیڈروں کے پردے میں کچھ انسانی کمزوریوں کا اشارہ ضرورملتا ہے ۔ کسی گیڈر کا اپنے آپ کو بادشاہ کا بیٹا کہنا اور اُس کے ساتھی گیڈروں کو اس کی تائید کرنا انسانی ماحول میں ایک ایسی ہی نفسیاتی احساس کمتری کے معنی رکھتا ہے جو فی الوقت ہمارے ہندوستان میں دیکھنے کو مل رہی ہے ۔
اس ضمن میں آپ نے این ڈی ٹی وی پر معروف صحافی وکرم چندرا کا ’’بگ فائٹ‘‘ نام کا وہ پروگرام ضرور دیکھا ہو گا جس میں آر ایس ایس کے ایک وِدوان نے دعویٰ کیا ہے کہ نہ صرف یہ کہ تاج محل اور لال قلعہ ہندوؤں کے بنوائے ہوئے ہیں بلکہ جامع مسجد بھی اصل میںیمنا مندر ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح والدین کو نوکر کے طور پر متعارف کروانے والا شخص اپنی گراوٹ پر شرمندہ نہیں ہوتا اسی طرح یہ نام نہاد ’’مفکر‘‘ یکے بعد دیگرے ایک سے بڑھ کر ایک مضحکہ خیز دعویٰ کرتا ہے جس سے نہ صرف یہ کہ اسٹوڈیو شرکا ء کے قہقہوں سے گونج جاتا ہے بلکہ پروگرام کے میزبان وِکرم چندرا خودبھی اپنی ہنسی پر قابو پانہیں رکھ پاتے اور اس حماقت پر اپنی حیرت کے اظہار کے لئے سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔
ویسے اگر آپ کو اس نام نہاد ، ’’مفکر‘‘ کے بیان پر حیرت ہو رہی ہے تو تاریخ سے متعلق زعفرانی احمقوں کے ان شاہ کاروں پر بھی نظر ڈال لیجئے، فہرست کچھ ایسی ہی ہے:
’’قدیم اٹلی ایک ہندو ملک تھا اور پوپ ایک ہندو مبلغ تھا۔‘‘
’’انگریزی سنسکرت کی ایک بولی ہے‘‘
قدیم انگلینڈ ایک ’’ہندو ملک‘‘ تھا
’’لفظ کرسمس( در اصل) کرشنا ماس ہے یعنی مہابھارت کے وقت میں ہندو اوتارکرشنا کا مہینہ‘‘۔ سنسکرت میں ’ماس‘ کا مطلب مہینہ ہوتا ہے۔‘‘
’’۔۔۔ برطانیہ عظمیٰ کے شاہی خاندان میں ایک ہندو پتھر اسی طرح مقدس ہے جس طرح بھگوان شِوا ہندو حکمرانوں کے نزدیک زمانہ قدیم سے بھگوان کی حیثیت رکھتے ہیں۔‘‘
جی ہاں۔ یہ حیرت ناک انکشافات Institute for Rewriting Indian History کے ایک رکن پروفیسر امر ناتھ نے 1973 میں اپنی ایک کتاب Some Missing Chapters of World History میں کیے ہیں۔
کتاب میں پروفیسر امرناتھ صاحب اپنے آپ کو پروفیسر پی این اوک کے ایک شاگرد کے طور پر متعارف کرواتے ہیں۔ یہ وہی پروفیسر اوک ہیں جن پر سب سے پہلے یہ انکشاف ہوا تھا کہ تاج محل ممتاز محل کا مقبرہ نہیں بلکہ اصل میں جے سنگھ کا بنوایا ہوا ایک مندر تھا۔
ایسا نہیں ہے کہ کسی ہندوتوائی نے حماقت پر مبنی ایسا بیان پہلی مرتبہ دیا ہو۔ اس سے پہلے آر ایس ایس کے ایک اور ’’مفکر‘‘ اور دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر راکیش سنہا ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں تاج محل کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہہ چکے تھے کہ اگر مسلمانوں کے پاس ایسی مہارت تھی تو اس کا مظاہرہ انھوں نے ان ممالک میں کیوں نہیں کیا جہاں سے وہ آئے تھے۔ کاش کوئی پروفیسر موصوف سے پوچھ لیتا کہ مسلمانوں کے ہندوستان میں آنے سے اور کون کون سی ہندو عمارتیں آپ کو تاج محل یا دیگر مسلم عمارتوں جیسی تھیں؟ ۔لطف کی بات یہ ہے کہ زعفرانی ٹولہ آج تک یہ فیصلہ نہیں کر پایا کہ مسلم عمارتیں ہندو راجاؤں کے محل اور مندر ہیں یا وہ مسلم عمارتیں ہونے کی وجہ سے ہندوستانی تہذیب کی ترجمانی نہیں کرتیں۔
انسانی تاریخ میں مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کا ایک دوسرے پر اثرانداز ہونا ایک فطری عمل ہے جو ہزاروں سال سے ہوتا چلا آرہا ہے اور یہ اثر دنیا بھر میں سب سے زیادہ کہیں نظر آتا ہے تو وہ ہندوستان ہے جسے اصطلاح عام میں گنگا جمنی تہذیب بھی کہا جاتا ہے۔ تہذیبوں کے اسی امتزاج نے یہاں کے لباس، کھانے پینے اور طرز تعمیر میں دنیا کیلئے ایک نئی چاشنی اور دلچسپی پیدا کی ہے اور اس خطے کو دنیا کی سب سے انوکھی تہذیب، انوکھے کھانے اورعجائبات دیئے ہیں۔ زبانوں کا ایک دوسرے پر اتنا اثر ہے کہ بی جے پی صدر امت شاہ کا اکثر دوہرایا جانے والا شہرہ آفاق لفظ ’’جملہ‘‘ ہندی نہیں اردو ہے۔ جو چوڑی دار کرتا پاجامہ نریندر مودی اتنے شوق سے پہنتے ہیں وہ بھی مسلم دور میں تہذیبوں کے اختلاط کا نتیجہ ہے۔ کھانے کو ہی لے لیجئے۔ پلاؤ اور کباب تقریباً پوری مسلم دنیا میں ملیں گے۔ مگر ہندوستان کے لذیز کباب ، بریانی، نہاری وغیرہ وہ ایسے رنگا رنگ اور مزیدارکھانے ہیں جو ہندوستان ، سینٹرل ایشیا اور ایران کی تہذیبوں کے باہمی اثر کے دین ہیں۔ عمارتوں پر اس اثر کو دیکھنے کیلئے آپ کو ایران یا سینٹرل ایشیا کا سفر کرنے کی ضرورت نہیں ، گوگل پر Indo Iranian buildings سرچ کیجئے اور جو تصاویر آپ کے سامنے آئیں گی ان میں موجود یکسانیت آپ کو حیرت میں ڈال دے گی۔ بہر حال قارئین کی آسانی کیلئے ہم یہ تین لنک دے رہے ہیں۔ ان میں ان تصاویر کو دیکھئے اور تاج محل، ہمایوں کے مقبرے اور جامع مسجد میں یکسانیت دیکھئے:
ایران کی مساجد
افغانستان کی مساجد
سینٹرل ایشا کی مساجد
ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے ہاتھوں ہندوستان میں تعمیر کی گئی عمارتوں میں ہندوستانی معمار بھی استعمال کئے گئے جس کا اثر ان عمارتوں میں ظاہر ہونا نا گزیر تھا ۔ مگر احساس کمتری میں مبتلا چند احمق اس اثر اور اس متزاج کی بنیاد پر کچھ سے کچھ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
ہندوستان میں تاریخ کے ساتھ تحقیق کے نام پر اس بھونڈے مذاق کی بنیاد پی این اوک نامی ایک شخص نے ڈالی تھی۔ پی این اوک کون تھا؟ سینئر صحافی اور مصنف مِہِر بوس کے مطابق جو کچھ اوک نے انہیں ایک انٹر ویو میں اپنے بارے میں بتایا اس کی تفصیلات کچھ اس طرح ہیں: ’’نومبر 1941 میں انڈین آرمی میں شمولیت کے بعد، جا پانی حملے سے آٹھ روز قبل ،انہیں سنگا پور میں تعینات کردیا گیا تھا۔ اس کے بعد وہ جاپان کی مدد سے ہندوستان کو آزاد کروانے کی سبھاش چندر بوس کی تحریک سے وابستہ ہو گئے اور انڈین نیشنل آرمی، جو ہندوستانی جنگی قیدیوں پر مشتمل تھی، کے میجر جنرل جی کے بھوسلے کے اے ڈی سی بن گئے۔ برطانوی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ بھوسلے ، جوبرٹش آرمی چھوڑ کر بھاگا تھا، در اصل برطانوی جاسوس تھا۔ 1975 میں یہ دستاویزات دستیاب نہیں تھے جس کی وجہ سے میں اوک سے اس بارے میں سوال نہیں کر سکا۔۔۔اس کے بعد انھوں نے (اوک نے) کچھ عرصے بحیثیت رپورٹر ہندوستان ٹائمز اور اسٹیٹسمین کیلئے اور پانچ سالہ منصوبے پر حکومت کے پبلسسٹ(نمائندہ) کے طور پر بھی کام کیاجہاں سے انہیں اچانک نکال دیا گیا ۔۔۔ اس مرحلے پر امریکنوں نے ان کی مدد کی اور انہیں امریکی انفارمیشن سروس کا ایڈیٹر بنادیا جہاں سے وہ باقاعدگی کے ساتھ ٹیلیگرام کے ذریعے مطلع کر تے تھے کہ ہندوستانی اخبارات میں کیا کچھ لکھا جا رہا ہے۔ ‘‘ (Midnight to Glorious Morning?)
بوس کے مطابق اوک مختلف ناموں سے لکھتے تھے جن میں سے ہرکوئی ایک دوسرے کی بے حد تعریف کرتا تھا ۔’’Agra fort پر مصنف کا نام ہنسراج بھاٹیا تھا۔ جب میں نے کتاب خرید لی تو اوک نے سرورق پر ہنسراج بھاٹیا کے نام کے سامنے لکھا ’عرف پی این اوک‘ ۔ اس کے بعد انھوں نے ہنسراج بھاٹیا کی تفصیلات ، جن میں انہیں انسٹی ٹیوٹ فار ری رائٹنگ انڈین ہسٹری کا رکن بتایا گیا تھا، کاٹ کر اس کے سامنے ’صدر‘ لکھ دیا۔۔۔دوسری کتاب میں مصنف کا نام پروفیسر امرناتھ تھا جنہوں نے بھاٹیا کی طرح اوک کی تعریف کی تھی اور بتایا تھا کہ وہ ان کے بہت سے لیکچرز نہایت انہماک کے ساتھ سن چکے تھے۔Some Misssing Chapters of World History نام کی اس کتاب میں موصوف نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہندوؤں کی بھی ایک سلطنت تھی۔‘‘
بہر حال اوک کی اس بکواس کو 1977 تک کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا تھا۔ اس کے خیالی پلاؤ کو پہلی مرتبہ تحقیق کے نام سے آگے بڑھانے کا کام 1977 میں جنتا دور حکومت میں کیا گیا جب وزیراعظم مرارجی ڈیسائی کے پرنسپل سیکریٹری نے وزیر تعلیم کے نام لکھے گئے ایک خط میں شکایت کی کہ کچھ کتابوں میں تاریخ کو مسخ کیا گیا ہے اور ہندوستان کو بدنام کیا گیا ہے۔
جنتا پارٹی کی حکومت محض دو سال قائم رہی مگر اس دوران کچھ سنگھی نمایندگان کلیدی اور اعلیٰ عہدوں پرپہنچنے میں کامیاب ہو گئے جہاں فرقہ وارانہ منافرت کے ان کے بوئے ہوئے بیج سے پھیلے ہوئے زہریلے اور خار دار جھاڑ پورے ملک میں پھیل چکے ہیں۔ یوں تو 2014 میں حکومت میں آنے کے فوراً بعد ہی بی جے پی نے اپنی فسطائیت کا مظاہرہ مختلف انداز میں کرنا شروع کر دیا تھا مگر 2016 میں منسٹری آف کلچر (وزارت ثقافت ) نے قدیم ہندوستان کی تاریخ پر نظر ثا نی کی غرض سے باقاعدہ ایک کمیٹی مقرر کی جس کا مقصد ’’موجودہ دور سے12000 سال سے پہلے ہندوستانی ثقافت کی اصل اورارتقا ء کامطالعہ کرنا اور دنیا کی دوسری ثقافتوں کے ساتھ اس کے اشتراک (انٹر فیس) کا مطالعہ کرنا ‘‘ بتایا گیاتھا۔
خبر رساں ادارے رائٹر کی 6 مارچ کی نشر کی گئی ایک خبر کے مطابق’’ ہندو قوم پرست وزیر اعظم نریندر مودی نے خاموشی کے ساتھ چھ ماہ پہلے اسکالروں کی ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔ ۔۔ رائٹرز کے اس کی میٹنگ کی رودادکا جائزہ لینے اور کمیٹی کے ارکان کے ساتھ بات کرنے کے بعد اس کے جو مقاصد سامنے آتے ہیں وہ ہیں: ایسے شواہد مثلاً آثارقدیمہ اور ڈی این اے کا استعمال کرکے یہ ثابت کرنا کہ ہزاروں سال سے ہندو ہی اس ملک کے اصل باشندے ہیں اور دلیل پیش کرنا کہ ہندوؤں کی مذہبی کتب اصل واقعات پر مبنی ہیں نہ کہ قصے کہانیوں پر۔‘‘
خبر میں مزید کہاگیا ہے کہ ، ’’14 رکنی کمیٹی کے ارکان اورمودی حکومت میں وزراء کے ساتھ بات چیت کے بعد واضح تاثر ملتا ہے کہ ہندو قوم پرستوں کی خواہشات 1.3 بلین لوگوں ، جو مختلف مذاہب پر مشتمل ہیں، پرحکومت کرنے سے بہت آگے تک ہیں۔ وہ بالآ خر ایسی قومی شناخت پیدا کرنا چاہتے ہیں جو ان کے اپنے خیالات کے مطابق ہو ، یعنی ہندوستانی ریاست ہندوؤں کی اور ہندوؤں کیلئے ہے۔‘‘
احساس کمتری کی دوسری شکل احساس برتری ہے اور جس فرد اور قوم میں دونوں میں سے کوئی بھی جذبہ موجود ہو وہ نہ ان کے اپنے نزدیکی لوگوں کیلئے بلکہ پورے معاشرے اور خطے کیلئے خطرناک ہوتا ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ اب کوئی بتائے کہ شاہ اردن کی موجودگی میں وزیر اعظم کی تقریر اور وہاں پر موجود بہت سے علما ء کے ذریعے اس تقریر کی تعریف کا کیا مطلب ہے؟