حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
محمد غزالی خان
وگیان بھون میں شاہ اردن کی موجودگی میں وزیر اعظم کی تقریر ، پروگرام میں ایسے چند لوگوں کی شرکت جنہیں عقیدت مند’’علماء‘‘ میں شمار کرتے ہیں اور وہا ں پر مولانا محمود مدنی کی تقریرسے متعلق سوشل میڈیا پر کچھ تبصروں اورمسلم نیوز پورٹلز پر ڈاکٹر ظفر محمود صاحب کے مضمون کے علاوہ ابھی تک کوئی تفصیلی جائزہ نظر سے نہیں گزرا ہے۔البتہ انٹرنیٹ فورمز، بالخصوص سب سے مقبول اور فعال فورم این آر آئی انڈینز پر ، جس پر مسلمانان ہند کے بہت سے معروف دانشوروں کی بھاری تعداد موجود ہے، اس پروگرام کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے اور وزیر اعظم کی تقریر کو مسلمانوں اور بیرونی ممالک کو بیوقوف بنانے کی کوشش بتایا گیاہے۔ ڈاکٹر محمود نے بھی اپنے مضمون میں کہا ہے کہ ایسی اچھی اچھی باتیں تو مودی نے پہلے بھی کی ہیں مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ مسلمانوں پر حملوں کے واقعات بڑھتے چلے جا رہے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون میں 12 نکات پر مبنی ایک فہرست دی ہے اور کہا ہے کہ اگروزیر اعظم کی سوچ اور فکر میں تبدیلی آئی ہے ان تمام پر عمل کیا جائے۔
سوشل میڈیا پر کئے گئے کچھ تبصروں میں اس پروگرام میں علما ء کی اس شرکت کو خوش آئند بتایا گیا ہے کیونکہ ، بقول مبصرین، حکومت وقت سے الگ تھلگ رہنامناسب نہیں ہے اور یہ کہ اب تک ملت نے کانگریس جیسی منافق جماعت پر بھروسہ کر کے اوربی جے پی کو اچھوت بنا کر دانش مندی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ اسی طرح محمود مدنی کے اس جملے کی تعریف بھی کی گئی ہے کہ سلطان وہی ہے جو دلوں کو جیت لے۔کہا گیا ہے کہ مولانا محمود نے اس ایک جملے میں مودی کی خبر لے ڈالی۔
راج دھرم نبھانے کا یہی مشورہ تو 2002 گجرات میں مسلم کش فسادات کے بعد اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے دورہ گجرات کے دوران مودی کو دیا تھا۔ وہ ویڈیو یو ٹیوب پر ابھی بھی دیکھی جا سکتی ہے جس کا جواب مودی نے یہہ کہہ کر دیا تھا، ’’وہی تو کر رہے ہیں صاحب! ‘‘ اور اپنی پوری وزارت اعلیٰ اور اب چار سال کی وزارت عظمیٰ کے دوران مودی جی نے ، ’’وہی تو‘‘ کیا ہے اور کرتے آرہے ہیں۔
اور جب ہندوتوا کے معتدل چہرے واجپائی جی کی بات ہو رہی ہے اور کیونکہ مودی جی کو دئیے گئے ان کے اس مشورے کا حوالہ اکثر دیا جاتا ہے تو ضروری ہے کہ قارئین کو یاد دلادیا جائے کہ یہ مشورہ اس وقت دیا گیا تھا جب موصوف کئی مسلم ممالک کا دورہ کرنے والے تھے اور جس کے پیش نظر انھوں نے کہا تھا کہ میں مسلم ممالک کے دورے کے دوران کیا منہ دکھاؤں گا۔بہر حال اُس دورے کے دوران جب کسی نے گجرات فسادات کا ذکر تک نہیں کیا ۔ اور واپسی پر جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا گودھرا یکسپریس پر حملے میں پاکستانی جاسوسی ادارے آئی ایس آئی کا ہاتھ تھاتو موصوف نے جواب دیا ، ’’اس کی تحقیقات جاری ہیں۔ البتہ بادی النظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ حادثہ اچانک نہیں بلکہ منصوبہ بند طریقے سے کیا گیا ہے۔‘‘ (ٹائمز آل انڈیا 4 اپریل (2002 گویا ہندوستانی مسلمانوں نے آئی ایس آئی کی ایما اور اس کے تعاون سے گودھرا ایکسپریس اور اس میں سوارل کار سیوکوں کو نظر آتش کیا تھا۔
اب تو ہم 2018 میں ہیں جب نہ یہ کہ نریندو مودی خود وزیر اعظم ہیں جن کی اسلام کے دو بڑے ٹھیکے دار یعنی سعودی عرب اور ایران دونوں ہی بڑی تعظیم و تکریم کے ساتھ مہمان نوازی کر چکے ہیں بلکہ سعودی عرب نے تو چار قدم اور آگے بڑھ کر انہیں سعودی عرب کا اعلیٰ ترین اعزاز سے بھی نوازا ہے۔اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے تقریب میں سلفی عالم کی موجودگی بھی کسی کیلئے معمہ نہیں رہنی چاہئے۔
جہاں تک محمود مدنی اور ان کی جمیعت العلما کا تعلق ہے موصوف کے والد اسد مدنی کے پاس تنظیم کی قیادت آنے کے بعد حکومت وقت کی چاپلوسی کے علاوہ اس کاکوئی اور کردار نہیں رہ گیا تھا ۔ تقریباً 18 سال تک راجیہ سبھا کی رکنیت کے عوض مرحوم نے تنظیم کو اور اینے آپ کو کانگریس کی خدمت کیلئے وقف تھی۔ میں بلا وجہ کسی مرے ہوئے مسلمان پر الزام نہیں لگا رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور غلطیوں کو معاف کرے مگر یہ بات تاریخ کاحصہ ہے اور نئی نسل کو اس کا علم ہونا چاہئے۔ نہ ان میں کوئی علمی لیاقت تھی اور نہ قائدانہ صلاحیت۔ جمیعت کی قیادت پر محض اس لئے قابض رہے کہ وہ ایک بڑے عالم دین کے بیٹے تھے اور اندھے عقیدت مندوں کیلئے بس اتنا ہی کافی تھا۔مرحوم مشاورت سے لے کر مسلم پرسنل لا ء بورڈ تک مسلمانوں کی کسی بھی اجتماعی کاوش سے ہمیشہ دور رہے۔ بڑے بڑے ملی مسائل سے لے کر 1980 کے مراد آباد فسادتک کبھی ان کی زبان نہیں کھلی۔ اس فساد کے بعد ملت کے صبر کا پیمانہ لبزیز ہو چکا تھا اور موصوف جہاں جہاں گئے مسلمانوں کے احتجاج کا سامنا کرنا پڑا۔ اس لحاظ سے محمود مدنی کا کردار نسبتاً بہتر ہے کہ کم از کم 2019 کے بعد راجیہ سبھا کی رکنیت ملنے تک تو وہ زبانی حد تک ہی سہی ہیں تو ملت کے ساتھ ہیں ۔موصوف کے بارے میں حسن ظن رکھنے والے وہ دوست جو مودی دربار میں ان کی اور دیگر علما ء کی حاضری کا دفاع یہ کہہ کر رہے ہیں کہ حکومت سے رابطہ ضروری ہے، ان کی خدمت میں عرض ہے کہ یہ کام وگیا بھون میں نہیں مسلمانوں کی تمام جماعتوں کو مشترکہ طور پر 2014 کے انتخابات کے فوراً بعد وزیر اعظم ہاؤس پر جا کر کرنا چاہئے تھا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اجتماعی اور مشترکہ فیصلے کے برعکس چند جماعتوں نے رابطے کابہانہ کر کے وزیر اعظم کے حضور باریابی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے اور تن تنہا اپنی وفاداری کی یقین دہانی کی ہے۔محمود مدنی کے تو مودی جی کے سے تعلقات یوں بھی نئے نہیں ہیں۔ بلکہ دسمبر 2013 میں دینک بھاسکر نے ایک خبر تصویر کے ساتھ شائع کی تھی جسے 28 دسمبر کے جدید خبر نے بھی شائع کیا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ محمود مدنی احمد آباد کا دورہ نریندر مودی کی خصوصی بلیٹ پروف گاڑی سے کرتے ہیں۔
البتہ جہاں تک ان معصوم لوگوں کا تعلق ہے جو اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ بی جے پی یا اس کی قیادت کبھی مسلمانوں کیلئے اچھا سوچ سکتے ہیں اپنے آپ کو دھوکا دینے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کر رہے ہیں۔ کمزور یادداشت والوں کی یاد داشت کیلئے اپنے ایک پرانے مضمون کا لنک بھی پوسٹ کر رہا ہوں
https://goo.gl/8h5RDZ