یو ٹیوب کے بعد مفتی واجدی نے طارق فتح نامی بھگوڑے کا ٹوئٹرپر ناطقہ بند کردیا۔ ایشین پینٹز نے پروگرام سے اپنا اشتہار واپس لے لیا اس کی جگہ پتنجلی نے لے لی ہے
محمد غزالی خان
مشہور کہاوت ہے کہ جھوٹ کے پیر نہیں ہوتے۔ گزشتہ کئی ماہ سے پاکستانی بھگوڑااور بدنام زمانہ اسلام دشمن طارق فتح (تارک الدین )کے گمراہ کن پروپیگنڈے اور جھوٹ کو جب مفتی یاسر ندیم الواجدی نے مباحثے کا چیلنج دیا تو بزدلی کی اپنی روش بر قرار رکھتے ہوئے تارک الدین بھاگ کھڑا ہوا ۔ اس کے بعد مفتی واجدی نے ٹیوٹر پر اس کا پیچھا کیا اور دو دن پہلے تک ہندوستان میں ان کا ٹیوٹر #BanFatahKaFatwa ہندوستان میں چھٹے نمبر پر ٹرینڈنگ کر رہا تھا۔
۔ https://www.change.org/p/asian-paints-mr-k-b-s-anand-managing-director-ceo-boycott-of-asian-paints-for-sponsoring-zee-news-program-fatah-ka-fatwa
اس سے قبل مفتی واجدی نے یو ٹیوب پر ایک فلم اپلوڈ کی تھی جس میں انھوں تارک الدین کو چیلنج دیتے ہوئے کہا تھا، ’’میں طارق فتح کو چیلنج کرتا ہوں ۔ اگر انھیں واقعی ڈبیٹ کرنے کا شوق ہے تو وہ آئیں اور دنیا کے کسی کونے میں مجھ سے ڈبیٹ کریں۔ مگر شرط یہ ہے کہ وہ ڈبیٹ ڈبیٹ رولز کی روشنی میں ہو گی۔ انڈیپینڈنٹ ججز کے سامنے ہو گی۔ عوام کے سامنے ہو گی کسی ٹی وی چینل کے اسٹوڈیو میں نہیں۔ وہ آئیں اور جو سوال انھیں پوچھنا ہے، جو الزام انھیں لگانا ہے، سوال اور الزام ان کا ہو گا اور جواب میرا ہو گا‘‘
مفتی واجدی نے اسٹوڈیو میں ڈبیٹ نہ کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا ، ’’یہ جو اسٹوڈیو میں بیٹھ کر تم بندروں کی پنچایت لگاتے ہو اس سے تمہارے مینٹل اسٹیٹس کا تو پتہ چل سکتاہے لیکن دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کبھی نہیں ہو سکتا۔ ڈبیٹ کے جو اسٹینڈرڈ رولز ہیں اگر ان کو فالو کرنے کیلئے تیار ہو تو پھر آؤ اور بتاؤ جگہ کہ کہاں آنا ہے۔ میں اور تم ، ہم ڈبیٹ کرتے ہیں۔۔۔اور دیکھتے ہیں کہ تمہارے جھوٹ میں کتنا دم ہے۔‘‘
ابھی تک مفتی واجدی یو ٹیوب پرتارک الدین کی دروغ گوئی اور گمراہ کن پروپیگنڈے پر Fatah ka Fatwa, A Surgical Strike کے عنوان سے آٹھ سے زیادہ کلپس اپ لوڈ کر چکے ہیں جس میں تارک الدین کے پروگرام سے لئے گئے فلموں کے حصے دکھا کر ہر اعتراض کا مدلل جواب دیا ہے۔
اپنے چیلنج کا جواب نہ ملنے پر مفتی واجدی نے تاریک الدین کو اپنے پروگرام کی آٹھویں قسط میں پھر للکارا اور کہا ، ’’ذی نیوز پر طارق فتح کا جو شو چل رہا ہے وہ ایک خاص ذہنیت اور خاص agenda کو لے کر چلا یا جا رہا ہے۔ جس کا مقصد صرف اور صرف اسلام اور مسلمانوں کو ہندوستان میں بدنام کرنا ہے۔ میں نے طارق فتح کو ایک ہفتہ پہلے ٹیوٹر پر چیلنج کیا تھا۔ لیکن طارق نے میرے ساتھ ڈبیٹ کرنے سے انکار کر دیا ہے ۔ کیونکہ اسے معلوم ہے کہ اگر اسٹینڈرڈ رولز کی روشنی میں اس کے ساتھ ڈبیٹ ہو گئی تو اس کا ایجنڈا اور اس کا راز فاش ہو جائے گا۔ اور دنیا کو پتہ چل جائے گا کہ وہ اپنے شو میں کتنا جھوٹ پھیلاتا ہے‘‘۔
نیز انھوں نے تارک الدین کو ٹیوٹر پر پیغام بھی بھیجا اور کہا ، ’’میں اب بھی تمہارے جواب کا منتظر ہوں۔ آؤ ہم ایک علمی مباحثہ کرلیں۔ تمہاری خاموشی تمہاری شکست نہیں سمجھی جانی چاہئے‘‘۔
مگر پہلے تو اس نے ٹوئیٹ کا جواب نہ دیا پھر اپنی اہلیہ سے اس کا جواب دلوایا جس میں اپنے بدنام زمانہ شوہر کی ناشائستگی پر قائم رہتے ہوئے موصوفہ نے ان الفاظ میں جواب دیا، ’’#FatahKaFatwa کوئی ڈبیٹنگ کلب نہیں ہے۔ اس کے علاوہ طارق فتح بکروں کے ساتھ ڈبیٹ نہیں کرتا جو اپنی بیویوں کو کالے تھیلے پہناتے ہیں‘‘
دریں اثنا ڈرامے بازتارک الدین نے ایک اور ڈرامہ برپا کرنے کی کوشش کی اورٹیوٹر یر دہلی کے سروجنی نگر پولیس اسٹیشن میں لی گئی اپنی تصویر کے ساتھ ایک پیغام جاری کیا،’’میں ممبئی سے واپس آگیا ہوں اور دہلی کے ایک پولیس اسٹیشن میں ان ملاؤں کے نام بتانے آیاہوں جو اپنے مقلدین کو مجھے ’دیکھ لینے‘ کی ترغیب دے رہے ہیں۔‘‘
پروگرام کی آٹھویں قسط میں مفتی واجدی نے برادرادان وطن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ، ’’میں اپنے ہندو بھائیوں سے ایک بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ طارق فتح اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے اور ہم بھی مسلمان ہیں۔ اب یہ مسلمان اور مسلمان کے درمیان جھگڑا ہو گیا۔ جو لوگ مسلمان نہیں ہیں ، غیر مسلم ہیں، ان کو اب یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ یہ طے کریں کہ کون سچا مسلمان ہے اور کون جھوٹا مسلمان ہے۔ اسلئے میں اپنے تمام ہندو بھائیوں سے اپیل کروں گا کہ وہ اپنے آپ کو اس قضئے سے دور رکھیں۔ اور مسلمانوں کے اس اندرونی مسئلے میں دخل نہ دیں۔ بہت سے کٹر پنتھیوں کے دخل دینے کی وجہ سے ملک میں جو فضا بن رہی ہے وہ ایسی بن رہی ہے کہ گویا طارق فتح ان لوگوں کا لایا ہوا اور پلانٹ کیا ہوا ہے جو اس ملک میں مسلمانوں اور ہندوؤں کو چین سے نہیں رہنے دینا چاہتے۔ ‘‘
اس سے قبل چھٹی قسط میں مفتی واجدی نے نہ یہ کہ تارک الدین کی بکواس کی دھجیاں اکھاڑیں جن کا حوالہ دیتے ہوئے بھی ایک مسلمان کی روح کانپتی ہے، بلکہ ان نام نہاد علما دین کی بھی خبرلے ڈالی جو مسلمانوں کے سنجیدہ طبقے کی جانب سے بار بار کی جانے والی اپیلوں کے باجود کہ اس کے پروگرام کا مکمل بائیکاٹ کیاجائے بار بار اس کے پروگراموں میں حصہ لے رہے ہیں۔ نام اور تشہیر کے ان شائقین کے پاس نہ تو تارک الدین، جس نے مستشرقین کی اسلام دشمن کتابوں کا وسیع مطالعہ کیا ہو ا ہے، سے بحث کرنے کی نہ صلاحیت ہے نہ علم اور نہ تربیت۔ ہر پروگرام میں انھوں نے اپنا مذاق اڑوانے اور اسلام کے خلاف غلط فہمیاں پیدا کرنے میں بھر پور کردار ادا کیا ہے۔
ان میں سے کوئی بھی ایسے سفید جھوٹ تک کو چیلنج نہ کر سکا کہ مدارس میں غیر مسلموں کو بلا وجہ قتل کردینے کی تعلیم و ترغیب دی جاتی ہے اور اس کے عوض ثواب کا یقین د لایا جاتاہے۔ ان میں سے بد نام زمانہ عارف محمد خان تو اس حد تک گئے کہ شرکاء میں سے ایک کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے یہاں تک کہہ ڈالا کہ ، ’’یہ جانتے ہیں کہ آپ کے مدرسے میں نصاب میں یہ پڑھایاجاتاہے کہ کافر کو بغیر وجہ کے مارا جا سکتا ہے۔ ۔۔‘‘
تف ہے ان نام نہاد علماء پر جو دین پر اتنا سنگین الزام اور ایسا کریہہ جھوٹ سننے کے بعد بھی خاموش بیٹھے رہے۔ اگر حسن ظن سے کام لیا جائے تو شاید ان کا رد عمل ٹی وی پر نہ دکھایا گیا ہو اور ایڈٹنگ کر کے حذف کردیا گیا ہو۔ تاہم اگر ایسا تھا تو کیا ان کا فرض نہ تھا کہ یہ لوگ احتجاج کرتے ، پروگرام میں شرکت نہ کرنے کی اپیلوں کو نظر انداز کرنے پر اظہار افسوس کرتے اور کہتے کہ اس پروگرام میں شرکت کر کے ان سے غلطی ہوئی ہے اور جو کچھ ان کے ساتھ ہوا ہے اس کی روشنی میں آئندہ کسی مسلمان کو اس میں شرکت نہیں کرنی چاہئے۔ مگر ایسا کوئی احتجاج اور اپیل ہماری نظر سے نہیں گزری۔
عارف محمد خان پر تبصرہ جار ی رکھتے ہوئے مفتی واجدی کہتے ہیں، ’’عارف محمد خان طارق فتح سے کچھ مختلف نہیں ہیں۔ آج سے دس سال پہلے بھی انہوں نے ٹائمز آف انڈیا میں مدرسوں کے نصاب کے خلاف ایک آرٹیکل لکھا تھا۔ میں نے اس کا جواب دینے کی کوشش کی مگر میرا جواب ٹائمز آف انڈیا نے نہیں چھاپا۔ لیکن اس حساب کو چکتا کرنا بہت ضروری تھا اور مجھے آج یہ موقع ملا۔۔۔انھوں نے پھر وہی الزام مدرسوں پر لگایا ہے جو دس سال پہلے لگایاتھا۔ اور پتہ نہیں کتنے اور سالوں سے وہ مدرسوں کے خلاف بولتے آئے ہیں۔ میں ان سے پوچھتا ہوں وہ کون سی کتاب ہے جس میں لکھا ہے کہ آپ کسی کافر کرچلتے پھرتے ایسی ہی قتل کر سکتے ہیں۔ اور اگر آپ قتل کریں گے تو آپ کو ثواب ملے گا؟‘‘
مفتی واجدی ویڈیو کلپ میں کہتے ہیں کہ ایک اسلامی مملکت ، جہاں شرعی احکامات کا نفاذ ہو ، وہاں پر کسی غیر مسلم کے قاتل کیلئے وہی سزائے موت ہے جو ایک مسلمان کے قاتل کی ہوتی ہے ۔ اس کے بعد مفتی واجدی اسکرین یر ابو داؤد کی وہ حدیث دکھاتے ہیں جس میں واضح الفاظ میں کہا گیا ہے ، ’’جومسلمان کسی معاہد (غیر مسلم شہری) پر ظلم کرے گایا اس کی حق ماری کرے گا ، یا اس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ (یعنی جزیہ) ڈالے گا، یا کوئی چیز جبراً لے لے گا ، تو میں خدا کی عدالت میں مسلمان کے خلاف دائر ہونے والے مقدمہ میں اس غیر مسلم شہری کاوکیل بن کر کھڑا ہوں گا۔‘‘
یہاں پر ایک اور حدیث پیش کرنا مناسب ہو گا جس میں آپﷺ نے فرمایا، ’’جس نے کسی معاہد کا قتل کیا وہ جنت کی خوشبو نہ سونگھ پائے گا جبکہ اس کی خوشبو (سفر کے) 40 سال کی دوری پر بھی سونگھی جا سکتی ہے۔‘‘ (صحیح بخاری)
ایک پروگرام میں تارک الدین غزوہ ہند کاذکر بھی کرتا ہے اور تمام شرکاء کا انداز ایسا ہوتا ہے جیسے کوئی نہایت خطرناک بات یا خفیہ سازش چھپائی جا رہی ہو۔ کوئی ایک بھی اس کی وضاحت نہ کر سکا اور اسطرح ناظرین کے ذہنوں میں معلوم نہیں کیا کیا سوالات اور کیسی کیسی غلط فہمیاں چھوڑ دی گئی ہوں گی۔ مفتی واجدی اس کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں، ’’حقیقت یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے قیامت قائم ہونے سے پہلے بہت سی ایسی نشانیوں کا تذکرہ کیا ہے کہ جب تک کہ وہ نشانیاں سامنے نہیں آئیں گی اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہو گی۔۔۔قیامت سے پہلے جہاں جہاں بڑی جنگیں ہونے والی ہیں نبی کریم ﷺ نے اس کی پیشین گوئی کی ہے۔اس حدیث کو غزوہ ہندکہا جاتا ہے۔ اس حدیث میں یہ کہیں نہیں ہے کہ مسلمانوں سے کہا جا رہا ہو کہ غذوہ ہند شروع کردو اور غیر مسلموں کو مارنا اور کاٹنا شروع کردو۔ اس حدیث کا مقصد قیامت کی ایک نشانی بیان کرنا ہے۔ ۔۔ ہو سکتا ہے یہ جنگ ہو گئی ہو اور ہو سکتا ہے یہ جنگ آنے والی ہو۔ جیسے آپﷺ نے دوسری جنگوں کا بطور نشانی ذکر کیا ہے ایسے ہی ہندوستان میں ہونے والی ایک جنگ کا آپ نے بطور نشانی کے ذکر کیا ہے۔ ‘‘
مفتی واجدی نے تارک الدین کے مختلف پروگراموں سے اس کی بد زبانی اور ناشائستگی کی کئی مثالیں پیش کی ہیں۔ ویسے اس کی بدزبانی پر کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ اکثر پروگراموں میں اسے فخریہ انداز میں یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ’’میں پنجابی ہوں اور یوپی کے نرم لہجے میں بات نہیں کروں گا‘‘۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ پنجاب ہو یا کوئی اور علاقہ بد زبانی اور نا شائستگی کسی خاص طبقے یا علاقے کاخاصہ نہیں ہوتی۔ بہرحال پنجاب یونیورسٹی کے طلبا نے اسے اسی کی زبان میں گزشتہ دنوں اپنی بات سمجھادی جسے وہ اچھی طرح سمجھتا ہے ۔
دوسروں کو عدم برداشت اور بد دیانتی کا الزام لگانے والے کا عدم برداشت اور بد زبانی ETV کے ایک پروگرام میں خاص طور پر سب پر عیاں ہو گئی جس میں بدتمیزی، ناشائستگی، بد زبانی، بد لحاظی اور بد اخلاقی کا مظاہرہ اس نے بھر پور انداز میں کیا حتیٰ کہ پروگرام کے آخر میں پروگرام کے ہوسٹ خورشید ربانی کے ساتھ رسمی ہاتھ ملانے سے بھی نہایت بدتمیزی کے ساتھ انکار کر دیا۔
یہ ہندوستان میں اپنے میزبانوں ، یعنی بی جے پی اور آر آر ایس کی زبان بلا جھجک استعمال کر رہا ہے اور ہندوستانی مسلمانوں پر ہندوستان کادشمن ہونے کا الزام لگا رہا ہے۔ جب بھی کوئی ہندوستانی مسلمان اسے یاد دلاتا ہے کہ وہ ایک پاکستانی ہے تو وہ فوراً جواب دیتا ہے، ’’آپ کا ملک نہیں ہو گا ہندوستا ن میرا تو ہے‘‘۔ معلوم نہیں کوئی اسے یو ٹیوب پر موجود اس کا وہ کلپ کیوں نہیں دکھا تا جس میں اس نے کہا ہے کہ ہندوستان کبھی بھی ایک ملک نہیں تھا اور اسے آئندہ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوجانا چاہئے۔
حقیت یہ ہے کہ تارک الدین کے مفتی واجدی کا چیلنج کو قبول کرنے سے انکار کے بعد ذی ٹی وی کے پاس کوئی جواز نہیں رہ جاتا کہ وہ اپنا بیہودہ پروگرام جاری رکھے۔ اپنے آقاؤں کی طرح اس ادارے نے بھی ہر مناسب اور جائز بات کو مسترد کرنے کی روش اختیار کی ہوئی ہے اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف منافرت پھیلانے کے مشن کو جاری رکھا ہواہے۔
جہاں تک ان نام نہاد علماء کی بات ہے جو تارک الدین کے پروگرام میں شرکت کرنے سے باز نہیں آ رہے ہیں سینئر صحافی دود ساجد صاحب ، جنہوں نے سب سے پہلے اس فتنے پر مضامین لکھ کر ملت کی توجہ اس جانب مبزول کرائی تھی ، نے اپنی ناگواری کا اظہار یہ کہہ کرکچھ ضرورت سے زیاد ہ احتیاط سے کام لیا ہے کہ یہ لوگ اسے اہمیت دے کر اس کی شہرت میں اضافہ کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے بہت سے وہ ہیں جو بدنامی کو شہرت سمجھ کر یا مادی لالچ میں ٹی وی یا اخبار میں آنے کے کسی موقع کو گنوانا نہیں چاہتے۔ ان میں سے کچھ کا ماضی یہ ہے کہ بی جے پی کی قیادت کی خوشنودی اور چاپلوسی میں لگے رہتے ہیں اور کچھ وہ ہیں جو ہندوستانی مسلمانوں کے نام پر اسرائیل تک کا دورہ کر آئے ہیں جن کی آنجہانی شیمون پیرس کو گاندھی جی کا مجسمہ پیش کرتے ہوئے تصاویر انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔
ہندوستان میں مسلمان اس مردود کے پروگرام کو بند کروانے کیلئے جدو جہد کر ہے ہیں مگر اس بد قسمتی کو کیا کہا جائے کہ کوئی بھی پولیس اسٹیشن اس کی ایف آئی درج کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیتاہے کہ کیونکہ نہ تو ملت میں کوئی بے چینی ہے نہ کوئی واقعہ ہوا ہے۔ یعنی مسلمان پہلے مشتعل ہوں کوئی پر تشدد حر کت کریں اور اپنے خلاف قانونی چارہ جوئی کا کوئی جواز فراہم کریں تا کہ اشتعال پھیلانے والا محفوظ رہے۔