جاوید حبیب : یونانی المیے کا ایک کردار
نام کتاب : جاوید حبیب : ہجوم سے تنہائی تک
مرتب : معصوم مرادآبادی
تبصرہ: محمد غزالی خان
صفحات: 256
قیمت: 200 روپئےناشر: خبردار پبلیکیشنر، Z-103 تاج انکلیو، گیتا کالونی، دہلی۔ 110031، ای میل: khabardaar@yhoo.com موبائل 09810780563
اگر آپ سے ایک ایسی شخصیت کے بارے میں پوچھا جائے جس کی تعلیم علیگڑھ میں ہوئی ہو، بعد میں وہ ایک بے باک اور بے لوث قائد اوربے خوف مقرر اور صحافی کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہو، اُس نے اپنا اخبار نکالا ہواور پھر بند کرنا پڑا ہو اور اس کی ذاتی زندگی مشکلات کا شکار رہی ہوتو یقیناًآپ کے ذہن میں مولانا محمدعلی جوہر یا حسرت موہانی کا نام آئے گا۔ان دونوں شخصیات کو آج بھلے ہی اُس طرح اور اُس پیمانے پر یاد نہ کیا جاتا ہو جس کے وہ مستحق ہیں مگر ملک کے حالات اور مسلمانوں کے خلاف نفرت اور اس کوشش کے باوجود کہ جنگ آزادی میں مسلمانوں کی قربانیوں کو تاریخ سے مٹادیا جائے، کسی متعصب ترین مورخ کیلئے بھی ممکن نہیں کہ انھیں نظر اندازکر سکے۔ مگر میں جس شخصیت کا یہاں پر ذکر کر رہا ہوں وہ جنگ آزادی کا سپاہی تو نہیں تھا البتہ آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کی بقا ء و سلامتی اور ان کے دینی اور ملی تشخص کو زندہ رکھنے کے لیے کی جانے والی مسلسل جدوجہد کا ایک جری سپاہی تھا۔ اس کے مثالی اخلاص ،بے لوث قربانیوں اور انتھک کاوشوں اور خدمات کے باوجود یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ آئندہ چند سال بعد اسے یاد بھی رکھا جائے گا یا نہیں۔جی ہاں میری مرا د علیگڑھ مسلم یونیورسٹی طلبا یونین کے سابق صدر ، بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے
کو آرڈینیٹر ، آل انڈیا مسلم یوتھ کنوینشن کے بانی اور ہفت روزہ ہجوم کے مدیر د مرحوم جاوید حبیب صاحب(پیدائش مئی 1948متوفی 11 اکتوبر 2012) سے ہے۔ میں جاوید حبیب کا موازنہ مولانا محمد علی جوہر یا حسرت موہانی سے کرنے کی حماقت اور جسارت نہیں کر رہا ہوں۔ البتہ یہ ایک اتفاق ہے کہ معصوم مرادابادی کی کتاب ’’جاوید حبیب ہجوم سے تنہائی تک‘‘ مجھ تک پہنچنے سے چند روز قبل ہی میں مولانا ماجد دریابادی کی کتاب محمد علی : ذاتی ڈائری کے چند اوراق‘‘ پڑھ رہا تھا اور میں اپنی اس جسارت کے لیے معافی کا خواستگار ہوں کہ مجھے جاوید حبیب کے کردار میں حسرت موہانی اور مولانا محمد علی جوہر دونوں کی جھلک محسوس ہوتی ہے۔ میری بات کی تائید کتاب ہذا میں پروفیسر اخترالواسع یو ں کرتے ہیں ’’جاوید کی شحصیت میں جو توکل واستغنا تھا اور کچھ بوہیمین انداز، اس کو دیکھ کر علی گڑھ کے زمانے میں مجھے نہ جانے کیوں حسرت موہانی کی یاد آتی تھی۔۔۔ ملی رہنماؤں میں کون تھا ، جس سے ان کا تعلق اور رابطہ نہ رہا ہو؟۔۔۔قومی رہنماؤں میں اٹل بہاری واجپائی، چندر شیکھر ، بابو جگ جیون رام، شری وی پی سنگھ اور شری نرسمہا رراؤ سے ان کے تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں رہے۔ جو لوگ جاوید حبیب کو نا معلوم وجوہات کی بنا پر طنز و تشنیع کا نشانہ بناتے تھے ، ان سے میں ہمیشہ ایک ہی بات پوچھتا تھا کہ جاوید حبیب نے ایوان اقتدار کی ان بلندیوں تک رسائی کے باوجود اپنے اور اپنے گھر والوں کے لئے کیا حاصل کیا؟ ‘‘
پروفیسر اخترالواسع ان لوگوں میں ہیں جنہوں نے جاوید حبیب صاحب کو زمانہ طالب علمی سے لے کران
کے آخری ایام تک بہت نزدیک سے دیکھا ہے اور ان کے ذاتی حالات سے بھی بخوبی واقف رہے ہوں گے۔ جاوید حبیب نے ذاتی زندگی میں کن مشکلات اور مسائل کا سامنا کیا ہو گا اس کا اندازا اخترالواسع کے ان جملوں سے لگا یا جا سکتا ہے، ’’کہتے ہیں خدا مسبب الاسباب ہے اور جاوید حبیب کو دیکھ کر میرا ایمان اور راسخ و پختہ ہوا۔ اس دارالاسباب میں جاوید حبیب کو خدا نے ایسی رفیقہ حیات زبیدہ بھابھی کی شکل میں عطاکی جنہوں نے انہیں معاش اور خانگی ذمہ داریوں کی تمام فکروں سے تقریباً بے نیاز کردیا تھا۔ ڈاکٹر زبیدہ حبیب جو جامعہ ملیہ کے ٹیچرس کالج میں ایک سینئر تدریسی منصب پر فائز رہیں ، جاوید حبیب کی سب سے بڑی حمایتی بھی تھیں اور طاقت بھی۔ زبیدہ بھابھی جیسی صبرو ثبات کی پیکر رفیقہ حیات واقعی جاوید کی نیکیوں کا ثمرہ تھیں۔‘‘
اس سے بڑھ کر اس صوفی صفت کارکن کی خودداری اور اعتماد کے قابل قدر اور چونکا دینے والے واقعات کی تفصیلات صحافی ، مصنف اور شاعر فارو ق ارگلی صاحب نے اپنے مضمون میں دی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایمرجنسی کے بعد 1977 کی انتخابی مہم شروع ہونے سے قبل بابو جگ جیون رام کی رہائش گا ہ پر ایک میٹنگ کے دوران بہوگنا جی نے بابو جی کو مشورہ دیا تھا کہ ’’علیگڑھ سے جاوید حبیب کو بلوانا چاہئے۔ غضب کا مقرر ہے، وہ آجائے تو شجاعت اﷲ، زیڈ کے فیضان، عرفان اﷲ، عارف محمد خان سب آجائیں گے۔‘‘
جاوید صاحب نے مہم میں شامل ہو کر عوام پر جو جادو چلایا اس کی ایک مثال دیتے ہوئے ارگلی صاحب لکھتے ہیں ’’ڈہری آن سون میں ڈالمیا سیمنٹ کمپنی کے وسیع میدان میں بابو جی کا چناوی جلسہ تھا ۔ بلا مبالغہ پچاس ساٹھ ہزار کا مجمع تھا۔ بابو جی کو دوسرے جلسوں سے فارغ ہو کر وہاں آنا تھا، آمد میں تاخیر ہو رہی تھی اور سامعین کا صبر ٹوٹ رہا تھا۔ ہمار اگروپ قصبہ بھبھوا کی ریلی سے رات نو بجے ڈہری پہنچا، جاوید صاحب نے مائک سنبھالا تو مجمع پر جادو سا کردیا۔ ایک گھنٹہ نان اسٹاپ بول کر مائک سے ہٹنے لگے تو شور مچ گیا ’’اور بولئے اور بولئے ۔ جاوید بھائی زندہ باد زندہ باد‘‘ جاوید صاحب پھر بولنے لگے ، بابو حی ساڑھے بارہ بجے رات کو آئے، مجمع جاوید صاحب کے سحر میں تین گھنٹہ سے گرفتار ہمہ تن گوش تھا۔ خطابت کا یہ انداز سننے والے نہیں بھول سکتے‘‘
الیکشن میں اپنی تقریروں کے ذریعے عوام پر جادو کردینے کے بعد جاوید حبیب سے سیاست دانوں کا متاثر ہونا لازمی تھا۔ جس کے بعد کی تفصیلات ارگلی صاحب یوں دیتے ہیں ’’چناؤ میں کانگریس کا صفایا ہوا۔ مرکز میں جنتا پارٹی کی سرکار بننے کا وقت آیا۔۔۔ جنتا پارٹی سرکار کا یہ وہ زمانہ تھا جب جاوید حبیب سبھی مرکزی لیڈروں کے پسندیدہ تھے۔ پیلو مودی جیسے با اثر نیتا تو ان کے عاشق تھے۔ جاوید حبیب چاہتے تو بڑے سے بڑا عہدہ ،یا کوئی بھی فائدہ حاصل کر لیتے مگر ان کے ذہن میں قوم و ملت کی نئی تعبیر کا خواب سر اٹھا رہا تھا۔ بابو کا نظریہ دلت مسلم اتحاد انہیں بہت اچھا لگا۔ اسی متحد قوت کے ساتھ سیاست کرنے کے خواہاں تھے۔۔۔ 1980 میں اٹھائیس مہینے کی جنتا سرکارگِر گئی۔ اندرا گاندھی دوبارہ وزیر اعظم بن گئیں۔ بابو جی نے کانگریس (جے) بنالی۔ بہوگنا واپس کانگریس کے سیکریٹری جنرل بن گئے۔ امام صاحب نے اپنی پر جوش روایتی سیاست شروع کردی۔ سب پارٹیاں اپنی اپنی دکانیں چلانے لگیں۔ جن سنگھ بی جے پی میں بدل گیا لیکن جاوید حبیب بابو جی کے ساتھ پوری استقامت کے ساتھ کھڑے رہے۔ جاوید حبیب نے سریش رام کے زور دینے پر ذاکر نگر میں رہائش اختیار کی۔ وہیں سے ہفت روزہ اخبار ’’ہجوم ‘‘ شروع کیا۔ دنیا نے دیکھا کہ جاوید حبیب صرف اچھے مقرر نہیں ، اعلیٰ درجہ کے ادیب ، دانشور اور صحافی بھی تھے۔۔۔انھیں دنوں جاوید حبیب نے بابوجی کے سامنے ’’کل ہند مسلم یوتھ کنوینشن ‘‘ کا آئیڈیا پیش کیا۔ بابوجی خوشی سے اچھل پڑے۔ بہت بڑھیا وِچار ہے۔ فوراً کام شروع کردو۔۔۔ ‘‘
مگر مسلمان سیاست دانوں کو چھوٹے موٹے عہدوں اور چند سکوں کے عوض خریدلینے کے عادی سیاسی پارٹیوں کے قائدین کو جاوید حبیب کی جس خود داری کا سامنا کرنا پڑا اس کی تفصیلات ارگلی صاحب یوں بیان کرتے ہیں ’’جن دنوں مسلم یوتھ کنویشن کا غلغلہ سارے شہر میں پھیلا ہوا تھا، بابوجی بہت خوش تھے۔ اس دن جاوید حبیب کی خودداری اور عزت نفس کی پاسداری کا عجیب نظارہ دیکھنے کو ملا۔ 6 کرشنا مارگ میں جاوید حبیب ، سریش رام اور راقم الحروف کنونشن کے انتظامات پر باتیں کر رہے تھے۔ دوران گفتگو مجلس استقبالیہ کے ارکان کا ذکر آگیا۔ جاوید حبیب نے بتایا کہ فلاں فلاں اصحاب اس میں شامل ہیں۔ سریش رام نے کہا ’’بنگال سے راجیہ سبھا کے رکن مسٹر حنان کو استقبالیہ کا صدر بنا لیجئے‘‘۔ جاوید حبیب نے جواب دیا ’’صدر کا انتخاب ہو چکا ہے، اب یہ ممکن نہیں‘‘ سریش رام کو اچھا نہیں لگا۔ زور دے کر کہا ’’حنان صاحب اپنے آدمی ہیں ، اپنی ریاست میں با اثر بھی ہیں، یہ کیا بات ہوئی ، کنوینشن میں ہمارا پیسہ لگ رہا ہے ۔ آپ کی بات ٹھیک نہیں۔‘‘
’’جاوید حبیب اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ میں آپ کے پیسے سے کنونشن نہیں کرتا۔ کہہ کر کوٹھی سے باہر نکل آئے۔ سریش نے مجھے اشارہ کیا کہ انھیں روکوں ، میں ان کے ساتھ ہی باہر آیا، ہمیشہ کی طرح ان کو لیجانے کے لئے ٹیکسی بھی نہیں بلانے دی۔۔۔سریش رام کی پیسے والی بات انہیں اس طرح چبھی تھی کہ سارا کھیل ختم ہو گیا، جگ جیون رام اور سریش رام سے تعلق ٹوٹ گیا۔۔۔‘‘
بہر حال جاوید حبیب نے کنونش کیا جس کی افتتاحی تقریر میں انھوں اپنے جذبات کا اظہار یوں کیا ’’دوستو اور بزرگو ! پر امید چہروں اور روشن دماغوں سے بھرے ہوئے اس اجلاس کے لئے میرے پاس دو نذرانے ہیں۔ ایک آنسو اور ایک ہلکی سی مسکراہٹ اور دونوں کے درمیان بے بس خاموشی۔ میرا آنسو عبارت ہے میری اپنی ذاتی بے بسی سے ۔۔۔میری مسکراہٹ عبارت ہے ایک مستقبل سے ، ایک امکان سے اور اس انقلابی پیغام سے جو آج سے 1400 برس پہلے محمد ﷺ نے ساری دنیا کے سامنے پیش کیا تھا ۔۔۔
’’دوستو اور بزرگو ! آج ایک ایسا شخص آپ سے مخاطب ہے جو اپنے دوستوں کے ہمراہ اسی خاموشی کو توڑنے کی کوشش کر رہا ہے جس کے پاس نہ مادی وسائل ہیں نہ دولت کے انبار۔ جس کا اخبار جب چاہے بند کیا جا سکتا ہے ، جس کے بارے میں دہلی میں پوسٹر لگتا ہے کہ وہ کانگریس (آئی) کا آدمی ہے اور ممبئی میں پوسٹر لگتا ہے کہ کانگریس (آئی) کا مخالف ہے۔ اگر حمایت کیلئے جماعت، کسی ادارے یا کسی شخص سے بات کرتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ وہ کوئی سازش کر رہا ہے، جس پر الزام تراشیوں کی بارش ہے۔ لیکن یہ کنوینشن ان تمام مخالفتوں کے باوجود اس ارادے سے کیا جا رہا ہے کہ ہمارے جذبوں میں سچائی ہے اور ہماری نیتیں صاف ہیں تو دنیا کی کوئی طاقت سوائے خدا کے ہمیں انقلاب کے راستے سے نہیں روک سکتی۔ ‘‘
جاوید حبیب کی جرأت مندی کی دوسری مثال ان کے قریبی دوست اور علیگڑھ سے لے کر ہجوم کی ادارتی ٹیم اوران کے آخری ایام تک ان کے رفیق فرحت احساس صاحب لکھتے ہیں ’’اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کیلئے انھوں نے بہت سے منصب چھوڑدیئے۔ وزیر اعظم وی پی سنگھ نے انہیں اقلیتی کمشین میں منصب دینا چاہا ۔ انہوں نے اسے لائق اعتنا نہ جانا۔ میں اس بات کا ذاتی گواہ ہوں کہ ایک رات وی پی سنگھ صاحب نے وزیر اعظم کی حیثیت سے انہیں دو تین بار فون کئے کہ آپ اگلے دن راجیہ سبھا کے انتخابات کے لئے کاغذات داخل کردیجئے مگر جاوید حبیب کا اصرار تھا کہ وہ اپنی آزادانہ حیثیت سے ہی راجیہ سبھا میں جا سکتے ہیں کسی کے نمائندے کی حیثیت سے نہیں۔ نمائندگی سے اُن کی مراد امام جامع مسجد کی نمائندگی جیسی سے ہے کہ جناب وی پی سنگھ دونوں کو بہ یک وقت خوش کرنا چاہتے تھے۔ انجام کار اگلے روز م ۔ افضل صاحب نے کاغذات داخل کئے اور راجیہ سبھا کے رکن بنے۔چار وزیز اعظم تھے یعنی وی پی سنگھ ، چندر شیکھر، نرسمہا راؤ اور اٹل بہاری واجپئی جن سے ان کے براہ راست تعلقات تھے۔ جنہیں وہ براہ راست فون کر سکتے تھے۔۔۔‘‘
کتاب میں تقریباً تمام مضمون نگاروں نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ جاوید صاحب اپنے وقت سے 15 سال آگے ہوتے تھے جس کی وجہ سے لوگ انہیں سمجھ نہیں پاتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ وہ دل کے اتنے صاف تھے کہ لوگ ان کی شرافت کا ناجائز فائدہ اٹھانے سے دریغ نہ کرتے تھے۔ اسے بد قسمتی کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ جاوید حبیب جو خدمت ہندوستانی مسلمانوں کیلئے انجام دے سکتے تھے وہ نہ دے سکے۔ شاہد صدیقی کے بقول ’’۔۔۔جاوید حبیب بنیادی طور پر ایک دانشور تھا۔ ملت کے مسائل پر سوچنے اور فکر کرنے والا انسان۔ جاوید حبیب میں لکھنے پڑھنے ، بولنے کی وہ صلاحیت تھی ، جو شاید اس مسلم یونیورسٹی کے کسی دوسرے نوجوان میں نہیں تھی۔ جاوید حبیب سیاست داں نہیں تھے، مگر انھیں سیاست کا شوق تھا۔ جاوید حبیب کی دِقّت یہ تھی وہ ہر میدان کے شہسوار تھے۔ بہترین صلاحیتوں کے مالک تھے۔ مگر کسی ایک میدان میں اپنی تمام تر صلاحیتوں کو استعمال نہیں کر سکے۔ ورنہ سچائی یہ ہے کہ وہ ملک کے ممتاز ترین مسلم قائدکی حیثیت سے ابھر کر سامنے آتے۔۔۔‘‘
یہ کتاب ایسے 25 صحافیوں، مصنفوں، یونیورسٹی کے اساتذہ، سیاست دانوں اور دانشوروں کے مضامین کا مجموعہ ہے جنہوں نے جاوید حبیب کے ساتھ کام کیا تھا یا ان کو نزدیک سے دیکھا تھا۔ ایسی کتاب مرتب کر کے معصوم مراد آبادی صاحب نے بہت اہم ملی خدمت انجام دی ہے۔ یوں تو یہ کتاب جاوید حبیب کی حیات و خدمات کے بارے میں ہے مگر اس میں مسلمانان ہند کے مسائل اور سیاسی بحران کے بارے میں بہت اہم معلومات ہیں۔ اس لیے نہ صرف یہ کہ علیگ برادری بلکہ ہر اس ہندوستانی مسلمان کو اسے ضرور پڑھنا چاہئے جو ہندوستان کے مسلمانوں کے سیاسی حالات میں دلچسپی رکھتا ہے۔ اس میں جاوید حبیب کے چند مضامین اور تقاریر بھی ہیں جنھیں پڑھ کر ان کی ذہانت فراست ،مسائل پر گہرائی سے سوچنے کی صلاحیت کا پتہ چلتاہے۔اس میں بہت سے دلچسپ تاریخی واقعات اور معلومات کا انکشاف بھی ہے مثلاً یہ کہ زمانہ طالب علمی میں معروف تاریخ داں اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلر پروفیسر مشیرالحسن نے اے ایم یواسٹوڈینٹس یونین کی صدارت کا الیکشن لڑا تھا اور جاوید حبیب کی جادوؤی تقریروں نے مشیر صاحب کی شکست میں بہت بڑا کردار ادا کیا تھا۔
کتاب کو پڑھ کر اس بات کا شدید احساس ہوتا ہے کہ کیسی ناقدری ہے کہ ہماری قوم اپنے مخلص دوست اور دشمن میں فرق نہیں کر پاتی بلکہ اپنے محسنوں کو تو یہ بعد میں ہی یاد کرتی ہے۔ افسوس کہ جو کام اور جو خدمت جاوید حبیب جیسی شخصیت انجام دے سکتی تھی وہ نہ دے پائی۔ فرحت احساس صاحب کے اس احساس سے میں بالکل متفق ہوں کہ ’’جاوید حبیب مجھے اکثر کسی یونانی المیے کے کردار معلوم ہوتے ہیں، ایسے کردار جو اپنے انتخاب کے نتائج کی آگ میں جل کر راکھ ہو جاتے ہیں، لیکن ان کرداروں میں بے پناہ بلندعزمی، بے پناہ صداقت، بے پناہ جرات مندی اور بے پناہ تخلیقیت ہوتی ہے، اس لئے ان کی شکست کی راکھ بھی نہ جانے کتنی فتح مندیوں کے چراغوں سے زیادہ روشن ہوتی ہے۔ جاوید حبیب نے ایک بڑا خواب دیکھا مگر اس خواب کو پروان چڑھانے والی حقیقت کی آنکھ فراہم نہ کر سکے۔ ممکن ہے یہ آنکھ ابھی پیدا ہی نہ ہوئی ہو لیکن آزادی کے بعد کے ہندوستانی مسلمانوں کی تخلیقی مساعی کی کوئی تاریخ کبھی لکھی گئی اور دیانت داری سے لکھی گئی تو وہ جاوید حبیب کو فراموش نہیں کرسکے گی۔